7 شعبان -آغاز غیبت صغری حضرت امام القائم عجل اللہ تعالی ۔۔ ۲۶۰ ہجری غیبت صغریٰ ۲۶۰ھ میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے فوراً بعد ہمارے بارھویں امام کی امامت کا آغاز ھوا، اور اسی وقت سے آپ کی "غیبت صغریٰ" کا بھی آغاز ھوگیا، اور یہ سلسلہ ۳۲۰ھ (تقریباً ۷۰ سال) تک جاری رہا۔ غیبت صغریٰ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مومنین امام القائم علیہ السلام کے خاص وکلاء کے ذریعہ رابطہ برقرار کئے ھوئے تھے اور ان کے ذریعہ امام علیہ السلام کے پیغامات حاصل کرتے تھے اور اپنے سوالات آپ کی خدمت میں بھیجتے تھے۔ اور کبھی امام القائم علیہ السلام کے وکلاء کے ذریعہ آپ کی زیارت کا شرف بھی حاصل ھوجاتا تھا۔ امام مہدی علیہ السلام کے وکلاء و سفراء اربعہ جو عظیم الشان شیعہ عالم دین تھے اور خود امام علیہ السلام کے ذریعہ منتخب ھوتے تھے جن کے اسمائے گرامی ان کی سفارت کی ترتیب سے اس طرح ھیں: ۱۔ عثمان بن سعید عَمری ؛ آپ امام علیہ السلام کی غیبت کے آغاز سے امام کی وکالت کرتے تھے، موصوف نے ۲۶۵ھ میں وفات پائی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ موصوف امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی وکیل تھے۔ ۲۔ محمد بن عثمان عمری ؛ موصوف امام علیہ السلام کے وکیل ۔ اول کے فرزند تھے جو باپ کے انتقال پر امام کی وکالت پر فائز ھوئے، موصوف نے ۳۰۵ھ میں وفات پائی۔ ۳۔ حسین بن روح نوبختی ؛ موصوف امام علیہ السلام کے ۲۱ سال وکیل رھے جس کے بعد ۳۲۶ھ میں ان کی وفات ھوگئی۔ ۴۔ علی بن محمد سمُری ؛ موصوف کا انتقال ۳۲۹ھ میں ھوا، اور ان کی وفات کے بعد غیبت صغریٰ کا زمانہ ختم ھوگیا۔ امام علیہ السلام کے خاص وکلاء ، امام حسن عسکری علیہ السلام اور خود امام علیہ السلام کے ذریعہ انتخاب ھوتے تھے اور لوگوں میں پہچنوائے جاتے تھے۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب "الغیبة" میں روایت کرتے ھیں کہ ایک روز عثمان بن سعید (وکیل اول) کے ساتھ چالیس مومنین امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے، امام علیہ السلام نے ان کو اپنے فرزند کی زیارت کرائی اور فرمایا : "میرے بعد یھی میرا جانشین اور تمہارا امام ھوگا۔ تم لوگ اس کی اطاعت کرنا، اور جان لو کہ آج کے بعد اس کو نھیں دیکھ پاؤ گے یہاں تک کہ اس کی عمر کامل ھوجائے۔ لہٰذا (اس کی غیبت کے زمانہ میں) جو کچھ عثمان (بن سعید) کھیں اس کو قبول کرنا، اور ان کی اطاعت کرنا کہ وہ تمہارے امام کے جانشین ھیں اور تمام امور کی ذمہ داری انھیں کی ھے"۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ھیں: "عثمان بن سعید" نے امام حسن عسکری علیہ ا لسلام کے حکم سے یمن کے شیعوں کا لایا ھوا مال اخذ کیا، اس وقت بعض مومنین نے جو اس واقعہ کے شاہد تھے ، امام علیہ السلام سے عرض کی:خدا کی قسم عثمان آپ کے بہترین شیعوں میں سے ھیں، لیکن اس کام سے آپ کے نزدیک ان کا مقام ہم پر واضح ھوگیا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا : جی ہاں ! تم لوگ گواہ رہنا کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ھیں اور اس کا فرزند "محمد" میرے بیٹے "مہدی" کا وکیل ھوگا"۔ یہ تمام واقعات امام علیہ السلام کی غیبت سے پہلے کے ھیں، غیبت صغریٰ میں بھی آپ کا ہر وکیل اپنی وفات سے پہلے امام علیہ السلام کی طرف سے منتخب ھونے والے وکیل کی پہچان کرادیتا تھا۔ یہ حضرات چونکہ اعلیٰ صفات کے مالک تھے جس کی بنا پر ان میں امام علیہ السلام کی وکالت کی لیاقت پیدا ھوئی۔ ان حضرات کے مخصوص صفات کچھ اس طرح تھے: امانت داری، عفت، رفتار وگفتار میں عدالت، راز داری اور امام القائم علیہ السلام کے زمانہ میں مخصوص حالات میں اسرار اہل بیت علیہم السلام کو مخفی رکھنا، یہ حضرات امام علیہ السلام کے قابل اعتماد افراد تھے - اور خاندان عصمت وطہارت کے مکتب کے پروردہ تھے، انھوں نے مستحکم ایمان کے زیر سایہ علم کی دولت حاصل کی تھی۔ ان کا نیک نام مومنین کی ورد زبان تھا، سختیوں اور پریشانیوں میں صبر و بردباری کا یہ عالم تھا کہ سخت سے سخت حالات میں اپنے امام علیہ السلام کی مکمل اطاعت کیا کرتے تھے، اور ان تمام نیک صفات کے ساتھ ان کے یہاں شیعوں کی رہبری کی لیاقت بھی پائی جاتی تھی،نیز مکمل فہم وشعور اور حالات کی شناخت کے ساتھ اپنے پاس موجود امکانات کے ذریعہ شیعہ معاشرہ کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت فرماتے تھے، اور مومنین کو غیبت صغریٰ سے صحیح و سالم گزار دیا۔ ..اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ |
No comments:
Post a Comment